۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
فاطمه س

حوزہ / حجۃ الاسلام والمسلمین مجد نے کہا: حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت سے ہمیں درس ملتا ہے کہ انسان اپنے سے پہلے دوسروں کی فکر میں رہے۔ انہوں نے کہا: حضرت زہرا سلام اللہ علیہا اپنی دعا میں بھی ہمیشہ دوسروں کو ترجیح دیتی تھیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کے نامور عالم دین اور خطیب حجۃ الاسلام والمسلمین سید رضا مجد نے تہران میں جامع مسجد غدیر میں "حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی نظر میں ایثار" کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا: امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف فرماتے ہیں "فاطمہ میرے لیے نمونہ ہیں"۔ مومنین کو بھی چاہیے کہ وہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے کلام، کردار اور عمل کو اپنے لئے نمونہ اور چراغِ راہ قرار دیں۔

انہوں نے مزید کہا: امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ میں نے ایک رات اپنی ماں کو دعا اور نماز میں مشغول دیکھا۔ وہ طلوع فجر تک عبادت اور دعا میں مشغول رہیں۔ میں نے سنا کہ میری ماں نے صبح تک مومنین اور مومنات کے لئے دعا کی حتی بہت سارے مومنین و مومنات کے نام لے کر میری ماں نے دعا کی لیکن اپنے لیے کوئی دعا نہیں کی۔ صبح کو میں نے ان سے کہا "امی جان! جس طرح آپ نے دوسروں کے لئے دعا کی اپنے لیے دعا کیوں نہیں کی اور خدا سے کوئی چیز کیوں نہیں مانگی؟ تو والدہ محترمہ نے جواب میں فرمایا "الجارُ ثُمَّ الدّارُ" یعنی "(میرے بیٹے!) پہلے ہمسایہ اور پھر گھر پر توجہ دینی چاہیے"۔

حجۃ الاسلام والمسلمین مجد نے کہا: ایثار قرآنی مفہوم ہے۔ امام حسن مجتبی علیہ السلام حضرت زہرا سلام اللہ علیہا سے ایک روایت نقل کرتے ہیں جس میں ذکر ہوا ہے کہ آثار کا معنی یہ ہے کہ یعنی "اپنے آپ پر دوسروں کو ترجیح دینا"۔ ایثار کے متعدد مصادیق ہیں؛ کبھی آثار مال خرچ کرنے میں ہے یعنی انسان کو معلوم ہے کہ اسےخود کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن پھر بھی وہ اپنا مال دوسروں پر خرچ کرتا ہے اور وہ اپنی مشکل کی پرواہ کیے بغیر دوسروں کی مشکل کو حل کرتا ہے۔

دینی علوم کے اس استاد نے کہا: حضرت زہرا سلام اللہ علیہا ایثار کی معلمہ اور اس قرآنی مفہوم پر عمل کرنے کا واضح نمونہ تھیں۔ اگر کوئی شخص خدا سے اپنے لئے کچھ نہیں مانگتا اور دوسروں کو اپنے آپ پر ترجیح دیتا ہے اور خدا سے ان کی بھلائی اور خیر طلب کرتا ہے تو اس نے درحقیقت ایثار کیا ہے۔ روایات میں بھی اس عمل کی بہت زیادہ مدح و ستائش کی گئی ہے۔

امام موسی کاظم علیہ السلام نے فرمایا: اگر کوئی برادر یا خواہرِ ایمانی کے لئے اس کی عدم موجودگی میں دعا کرتا ہے تو عرشِ الہی سے اسے آواز دی جاتی ہے کہ "جو نعمت تم نے دوسروں کے لئے مانگی ہے وہ دو برابر تمہارے لئے قبول کر لی گئی ہے"۔ بعض روایات میں دو برابر اور بعض دیگرروایات میں اس کا ثواب ایک ملین برابر بھی آیا ہے اور اس کی دلیل یہ بیان کی گئی ہے کہ چونکہ تو اپنے دینی بھائی سے محبت کرتا ہے اور اس کے لیے تو نے دعا کی ہے۔

حجۃ الاسلام والمسلمین مجد نے کہا: یہ روایات ایثار کی اہمیت اور مومنین کے درمیان قلبی رابطے اور باہمی محبت کو بیان کرتی ہیں۔ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت اور عمل سے جو درس حاصل کیا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ "انسان ہمیشہ اپنے سے پہلے دوسروں کی فکر میں رہے اور انہیں حتی دعا کرنے میں بھی اپنے آپ پر ترجیح دے"۔ ایثار (جذبۂ قربانی) کا یہی معنیٰ ہے کہ جسے دینی اور قرآنی ثقافت میں بہت پسندیدہ عمل قرار دیا گیا ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .